راحت علی صدیقی قاسمی
اتر پردیش ہندوستان کی وسیع و عریض ریاستوں میں سے ایک ہے اگر اسے سیاسی اعتبار سے ہندوستان کادل کہا جائے توبیجاناہوگا اس ریاست نے بہت سے سیاسی رہنماوں کے قد بلند کئے اور ناجانے کتنے لیڈروں کا سیاسی قلع مسمار کر دیا تہس نہس کردیا جس کے سر پر یو پی کا تاج سجتا ہے اسکی سیاسی دنیا میں بڑی قدر و منزلت ہوتی ہے اور کیوں نا ہو یہ صوبہ کسی ملک سے کم نہیں ہے جہاں افراد کی تعداد (199,581,477)اتنی کثیر ہے کہ دنیا کے کئی ممالک اس سے کم تعداد اور کم رقبہ رکھتے ہیں اس لئے ہمیشہ سے اترپردیش کو فتح کرنا بڑا اہم سمجھا گیا اور سیاسی جماعتیں ایسی تدابیرمیں مشغول و مصروف رہیں جوانہیں اس صوبہ کی گدی پر براجمان کرسکیں اوروہ ہندوستان کے وزیر اعظم بننے کے خواب کو دیکھنے کے اہل ہوجائیں اپنی سیاسی حیثیت ثابت کرنے میں کامیاب ہوں اسی طرح ہمیشہ یہ بھی کہاجاتا رہاکہ اس صوبہ کو مسلمانوں کے بغیر فتح نہیں کیاجاسکتا یہاں اگر جیت کاپرچم لہرانہ ہے تو مسلمانوں کا ساتھ ضروری ہے اس فلسفہ کے بغیر یہ خواب شرمندہء تعبیر نہیں ہوسکتایہ تصوربھی نادانی اور بیوقفی ہے کہ مسلمانوں کو چھوڑکر یہاں حکومت قائم کرلیجائگی جو پارٹیاں مسلمانوں کا استحصال کرتی رہین انہیں یہاں اس کا خمیازہ ہمیشہ بھگتنا پڑا اور منصب عظمی پر فائز نا ہو سکیں ان تمام احوال کو پرکھتے ہوئے ایک جماعت نے اپناسفرشروع کیا اور مسلمانوں کی ہمایت میں ایسے فیصلے کئے جو اپنے پرائے سب کوحیران کرنے والے تھے عقل حیران وششدر اور آنکھیں خیرہ کرنے والے مناظرسامنے آئے کار سیوکوں پرگولی چلوانا ہر کسی کے بسکا روگ نہیں تھا مگرسماجوادی پارٹی نے اپنی حکمت عملی کو پوری طرح انجام دیا اور اسی طریقئہکار نے ایک نو اموز پارٹی کو وقار و عظمت کے اس مقام پرپہونچایا جومتصور نہیں ہے 1992میں پیدا ہوء یہ جماعت آج کء تاریخیں رقم کرچکی ہے صوبہ کی گدی پر اسکے رہنما بیٹھ چکے ہیں یہی حکمت عملی سماجوادی پارٹی نے2012کے انتخاب میں اختیار کی اگر اسکا انتخابی منشور دیکھا جائے تو اسکابخوبی اندازہ ہوجاتا ہے یا صرف اتنا کہدینا اس کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے وعدے یہاں تک تھے کہ مسلمانوں کو 17فیصدریزیرویشن دیا جائیگا اور یہ حکمت عملی کامیاب ثابت ہوء مسلمانوں نے اپنے چہیتے رہبر ملائم سنگھ یادوکا پوری طرح ساتھ دیا اوراس انتخاب نیایک نوجوان کو ریاست کا وزیراعلیٰ منتخب کردیا اب ان وعدوں کی تکمیل کا مرحلہ آن پہونچا جو کئے گئے تھے توطیور بدلے طریقہ بدلا طرز عمل تبدیل ہوا یقینا سماجوادی پارٹی نے کچھ وعدوں کو پایئہ تکمیل تک پہونچایا مگر ریزیرویشن کے نام پر مسلمانوں نے خود کو ٹھگا ہوا ہی محسوس کیا سلسلہ آگے بڑھتا رہا ایک عجیب و غریب طریقہ کار اس دوران سماجوادی نے اختیار کیا جس کے پس منظر میں دیکھا جائے تومسلمان انصاف سے پوری طرح محروم ہوئے خاص و عام سب کے ساتھ یہی برتائوانکے درد کا مداوا نہیں ہوا انکے آنسوں کی قیمت لگاء گء انکی ہمدردی کوسکوں کی کھنک کا غلام سمجھا گیا کون بھول سکتا ہے 2013کی وہ بھیانک راتیں وہ قلب و جگر کو چیرنے والی چیخ وپکار ذہن و دماغ کو ہراساں کرنے والاماحول جوان دوشیزاوں کا خوف کے عالم میں راتوں کو جاگنا گھروں سے اٹھتاہوا دھواں ہر طرف بلند ہوتی آہ و بکا کی آوازیں جن لوگوں نے دیکھا وہی اس کربناک درد انگیز منظر کی حقیقت سے واقف ہیں 70لوگوں کی جانیں گئیں 100زیادہ زخمی ہوئے ہزاروں افراد کا مسکن اور ٹھکانہ ختم انصاف کے نام پر آج تک کیا ملا لاشیں خریدی گئیں معاوضہ کی بھیک دیدی گء انصاف کے نام پرکچھ بھی تو نہیں ایک رپورٹ آئی اسکو بھی ردی کے ٹوکرے میں پھیکنے پر مجبورہوئے اسی پر بس نہیں اگر ایک مسلمان افسر نے حق وانصاف کی آواز بلند کی ظلم جبروتشدد کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے تو اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیااسکی معصوم بیوا چلاتی رہی انصاف کی دہاء دیتی رہی لیکن جس
شخص پر قتل کاالزام تھا اسے عہدہ سپرد کیا گیا اسکی عزت افزائی ہوئی اسکے حوصلوں کو بلندکیا گیا اور آجتک اس جانباز شہید مسلمان کو انصاف کے نام پر کچھ نا مل سکا تڑپ کر رہ گء ایک محب وطن کی بیوہ مگر ظالموں کے دل نرم نہیں ہوئے اور انصاف اسکی طرف متوجہ نہیں ہوا پھر یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ غم اور بھی ہیں تلخ تجربات کا طویل ترین سلسلہ ہے جس کی دوچار کڑیاں پیش کی جارہی ہیں تاکہ حق اور حقائق سے کوء آنکھیں چرانے کی جرائت نا کرسکے کون بھلاہے دادری کا وہ دلدوز حادثہ ایک مسلمان کو چند اوباشوں نے بڑی بے رحمی سے پیٹ کر مارڈالا انتظامیہ سوء رہی پولیس کے کان پر جوں نہیں رینگی اور مسلمانوں کے مسیحا و ہمدرد کہے جانے والے افراد نے لاش کی قیمت لگانے کے سوا کوء قابل ستائش کام انجام نہیں دیا اخلاق کی موت کو کئی ماہ گذرگئے مگر انصاف کے نام پر کچھ نہیں بلکہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کے وہ مجرم تھا اگر وہ بالفرض سزا کا مستحق تھا تو کیا انصاف اوباوشوں کے سپرد کیاجاچکا عدلیہ اور انتظامیہ کی اس ملک میں کوء ضرورت نہیں اگر ایسا نہیں توکیوں شکنجہ نہیں کسا گیا اخلاق کے قاتلوں پر آئینہ کی طرح صاف کیس میںاتنی تاخیر چہ معنی دارد اور بہادر افسر تنزیل احمد کا قتل اتنے بھیانک طریقے سے کہ دیکھنے والے کی روح کانپ اٹھیں اس محب وطن کے ساتھ کیا ہو۔سب جانتے ہیں ان تمام مواقع پر مسلمان انصاف سے محروم رہے ہیں آخر کیوں کیا سماجوادی نے اپنا طرز عمل بدل لیا کیا بی جے پی کی جیت نے اسے اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے پر آمادہ کیا ملا کہے جانے والے ملائم آخر اپنے اس عمل پرکیوں شرمندہ ہوئے جس پر انکی سیاسی بساط قائم ہے کارسیوکوں کی حفاظت کا جذبہ کیون انکے دل میں پیدا ہوا راجیہ سبھا میں کیوں کسی مسلمان کا داخلہ نہیں ہواعظیم رہنما سماجوادی میں بڑی اہمیت کے حامل ملائم سنگھ کے بھت قریبی سمجھے جانے والے اعظم خان کو بے حیثیت کرتے ہوئے اس شخص کو پارٹی میں کیوں شامل کرلیا گیا جو زہر کھانے کے لئے تیار تھا مگر ملائم کے ساتھ بیٹھنے لے لئے تیار نہیں تھا عظیم اتحاد سے ملائم نے وقت پر کیوںہاتھ کھینچا یہ سب وہ سوالات ہین جو اس بات کو عیاں و بیاں کرنے کے لئے کافی ہین کہ سماجوادی نے بی جے پی کی شاندار فتح کو دیکھتے ہوئے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے اب مسلمانون کا اسکی نظر میں وہ مقام نہیں جو کبھی ہوا کرتا تھا اب تو ایک مخصوص طرز پر انہیں استعمال کرنا ہے اور وقت آنے پر انکا استحصال کرنے سے بھی نہیں چوکنا ہے غیر مسلموں کو پارٹی سے قریب کرنے کی کوشش کرنی ہے متھرا کا سانحہ اسکی منھ بولتی تصویر ایک عرصئہ دراز تک اس جانب توجہ نہیں دی گء اسلحہ کا وہان ڈھیر لگ چکا مگر حکومت بے خبر ہے پولیس اہلکاروں کی لاشیں اٹھیں انکے بیوی بچے آنسو بہانے پرمجبورہوئے آخر اتنا وقت اور اتنا موقع کیوں فراہم ہوا کہ یہ عظیم حادثہ رونماہو سکے ان تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے ہر ذی شعورادراک کرلیگا کہ سماجوادی پارٹی کس سمت جارہی ہے اب عام مسلمانوں کو اس سے وہ امیدیںوابستہ نہیں رکھنی چاہئیں جو کبھی ہوا کرتی تھیں جو کارنامے اس جماعت نے مسلمانوں کے لئے انجام دئے وہ اب متصور نہیں لیکن ملائم سنگھ یادو کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ حکمت عملی انہیں تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کریگی انکے سیاسی محل کو بے نور کردیگی وہ اپنی جماعت کو بی جے پی سمجھنے کی بھول قطعی نا کریں بی جے پی ابتدا سے اپنی مخصوص حکمت عملی پر عمل کرتی رہی تنزلی ترقی ہار جیت کبھی بھی انہوں نے اپنے مخصوص اندازکو ترک نہیں کیا اگر اج ملائم سنگھ یادو اپنے طریقئہ کار پر توجہ نہیں دیتے تو انکاحال اس مثل کی مانندہوجائیگاگھر کے رہے نا گھاٹ کے مسلمانوں کے اعتمادکو تو ٹھیس لگی ہے غیر مسلموں کا اعتماد بھی بحال نا کرسکے یہ تو وقت ہی بتائیگا کہ انکی آنکھیں کب کھلتی ہیں انتخاب سے پہلے یا بعد۔
(مضمون نگار بصیرت میڈیاگروپ کے رکن ہیں)